(شوہر یا والد کانام لیکر پکارنا کیساہے؟)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا بیوی شوہر کو اس کے نام سے پکار سکتی ہے ؟
المستفتی ، نظامی سلطان رتلام
المستفتی ، نظامی سلطان رتلام
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
فقہائے کرام نے اس پر نص فرمائی ہے کہ بیوی کو اپنے شوہر کا نام لے کر پکارنا یا بیٹے کو اپنے باپ کا نام لے کر پکارنا خلاف ادب و نا پسندیدہ ہے ، ایسے الفاظ و القابات کا انتخاب کیا جائے جس سے کہ ان کی تعظیم ہو یہی مؤدب و مندوب ہے ، ہاں اگر کہیں ایسی ضرورت آ جاۓ کہ شوہر کو نام لے کر پہچان کرانا مقصود ہو یا کہیں کاغذات وغیرہ بنوانے میں ضرورت پیش آ جائے تو کوئی حرج نہیں ، الضرورات تبيح المحظورات
فتاوی شامی میں ہے:ويكره أن يدعو الرجل أباه وأن تدعو المرأة زوجها باسمه بلفظه"یہ مکروہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے باپ کو اس کے نام سے اور کوئی عورت اپنے خاوند کو اس کے نام سے پکارے "بل لا بد من لفظ يفيد التعظيم كيا سيدي ونحوه لمزيد حقهما على الولد والزوجة،وليس هذا من التزكية،لأنها راجعة إلى المدعو بأن يصف نفسه بما يفيدها لا إلى الداعي المطلوب منه التأدب مع من هو فوقه"بلکہ ایسا لفظ ضروری ہے جو تعظیم کا فائدہ دے جیسے یا سیدی وغیرہ ۔ کیونکہ ان دونوں کا بچے اور بیوی پر حق زیادہ ہے۔ یہ تزکیہ میں سے نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اس کی طرف راجع ہے جس کو بلا یا جارہا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنی صفت اس چیز سے بیان کرے جو تزکیہ کا فائدہ دے نہ کہ اس داعی کی طرف راجع ہے جس سے اس کا ادب بجالا نا مطلوب ہے جو درجہ میں اس سے بڑھ کر ہے۔(ج ٩ ص ٥٩٩ تا ٦٠٠ مکتبہ بیروت لبنان)
المعتقد المنتقد المستند المعتمد کے حاشیہ میں ہے:ہمارے فقہاء نے اس بات پر نص فرمائی ہے کہ بیٹے کو یہ منع ہے کہ اپنے باپ کو نام لے کر پکارے اور عورت کو شوہر کا نام لے کر پکارنا منع ہے۔(مترجم و محشی ص ٢٨٩ مرکز الدراسات الاسلامیہ بریلی شریف)
بہار شریعت میں ہے:باپ کو اس کا نام لے کر پکارنا مکروہ ہے ،کہ یہ ادب کے خلاف ہے۔ اسی طرح عورت کو یہ مکروہ ہے، کہ شوہر کو نام لے کر پکارے۔(ج ٣ ص ٥٥٧ تا ٥٥٨ مکتبہ دعوت اسلامی)واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
کتبہ
محمد معراج رضوی واحدی
ایک تبصرہ شائع کریں